اسلامی معاشرے میں معمر ( عمر رسیدہ) افراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔ اس کی بنیاد اسلام کی عطاکردہ وہ ہفت آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمر رسیدہ افراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ اللہ کے آخری نبیﷺنے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد کو درج ذیل حقوق حاصل ہوتے ہیں:

1۔ عام سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی اللہ کے آخری نبیﷺ نے بڑوں کی تکریم کرنے کی تعلیم دی۔ حضرت عبد الله بن سہیل اور حضرت محیصہ بن مسعود خیبر پہنچے تو وہ دونوں کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ عبد الله بن سہیل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبد الرحمن بن سہیل اور مسعود رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹے خویصہ اور محیصہ الله کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے مقتول ساتھی (عبد الله رضی اللہ عنہ ) کے مقدمہ کے بارے میں گفتگو کی تو عبد الرحمن نے ابتداء کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر الله کے آخری نبیﷺنے فرمایا: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔ (بخاری، 4/138، حدیث: 6142)

2۔ عمر رسیدہ افراد کی تعظیم عظمت رسالت کا نفاذ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ الله کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت وتکریم، میری بزرگی و عظمت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

3۔ معمرافراد کی تکریم صحت مندرِوایت کی اساس۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ الله کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمررسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے۔ اللہ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

4۔ معمر افراد کا وجود باعثِ برکت۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیرو برکت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نےارشاد فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو۔ کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

5۔ استطاعت سے زیادہ بوجھ سے استثناء کا حق۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ اللہ کے آخری نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیونکہ جماعت میں کمزور، بیمار اور بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، البتہ جب تنہا پڑھے تو اسے جتنی چاہے لمبی کرلے۔ (ابو داود، 1/211، حدیث:794)

گزشتہ تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام،معاشرے کے عمر رسیدہ افراد کو کس قدر اہمیت دیتا ہے،اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی برتنے کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر لحظہ معمر افراد کی خدمت کریں اور ان کے حقوق ادا کریں۔ عمر رسیدہ افراد کے علاوہ کمزور و ضعیف افراد بھی معاشرے کی غیر معمولی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے میں بہت سے امور میں دوسرے افرادِ معاشرہ کے محتاج ہوتے ہیں۔

اللہ ہمیں معمر و ضعیف افراد کی مدد کرنے،ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے،نرمی برتنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبینﷺ


دین اسلام نے جہاں سب کے حقوق بیان کیے اسی طرح ضعیف و معمر لوگوں کے حقوق بھی تعلیم فرمائے ہیں۔ یہ قدرت کا نظام رہے کہ پہلے بچپن پھر لڑکپن کے پھر جوانی اور اسکے بعد بڑھاپے کی عمر میں ہر کسی کو قدم رکھنا ہی پڑتا ہے۔ عمر رسیدہ افراد ناتوانی اور کمزوری کے باعث ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچوں کی مانند ہو جاتے ہیں اور اب وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور دوسروں کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کا صرف احترام ہی نہیں بلکہ ان پر رحم کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی جہاں خود بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کیا ساتھ ہمیں بھی انکے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی جیسا کہ

1۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے اور اچھی بات کا حکم نہ کرے اور بری بات سے منع نہ کرے۔ ( ترمذی، 3/370، حدیث: 1928)

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی:جوان اگر بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی وجہ سے کرے گا تو اس کی عمر کے وقت اﷲ تعالیٰ ایسے کو مقرر کردے گا، جو اس کا اکرام کرے۔ (ترمذی، 3/411، حدیث: 2029)

3۔ ایک دوسری روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔ (بخاری، 4/138، حدیث: 6142)

4۔ حضرت حسن بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہوں۔ (شعب الایمان، 7/460، حدیث: 10987)

5۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اللہ کی تعظیم کا حصہ ہے۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

لہٰذا ان فرامین مصطفی ﷺ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ہمیں ضعیف افراد کی تعظیم کرنی چاہیے، ان کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ خوب خوب ان کی خدمت اور انکے ساتھ حسن سلوک کرکے ان کی دعائیں لینی چاہئیں۔سفید داڑھی والے مسلمان کا احترام خود رب فرماتا ہے کہ جب وہ دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو وہ کریم اس سے شرم فرماتا ہے کہ ان ہاتھوں کو خالی پھیرے تو بندہ اس کا احترام کیوں نہ کرے۔

بزرگ افراد چونکہ عمر رسیدگی کے باعث کمزور ہوجاتے ہیں لہذا یہ لوگ بھی اللہ کی نعمت ہیں کہ روایت میں ہے تمہیں رزق تمہارے کمزوروں(بزرگوں) کی برکت سے ہی ملتا ہے۔(کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

اللہ کریم ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے بزرگوں کا باادب اور انکے حقوق کی ادائیگی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ


جہاں تک حقوق کا تعلق ہے اور خاص طور پر حقوق العباد تو حقوق العباد میں انسان کا اپنے اقارب و ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا شامل ہے۔ حقوق میں غفلت برتنے کا انجام آج کل ہمارے معاشرے میں معمر اور ضعیف لوگوں کے حقوق کے بارے میں غفلت برتنا بہت عام ہے اس سے بہت سے لوگ غافل ہیں۔ان کے حقوق بھی چونکہ حقوق العباد میں شامل ہے اور حقوق العبادکی ادائیگی میں غفلت برتنے سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ ہر کسی کا حق اِسی دنیا میں ہی ادا کرنا آخرت میں ادا کرنے کی نسبت بہت آسان ہے کیونکہ اگرحقوق معاف کروائے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو ایک روپیہ دبانے،کسی کو ایک ہی گالی بکنے، محض ایک بار کے گھورنے،جھڑکنے اور الجھنے کے سبب ساری زندگی کی نیکیوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

احادیث کی روشنی میں معمر اور ضعیف لوگوں کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ سماجی معاملے میں تکریم کا حق۔ حضرت عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر پہنچے تو وہ دونوں باغات میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ (دریں اثنا) عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنے ساتھی کے معاملہ میں انہوں نے گفتگو کی تو عبدالرحمن نے ابتدا کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔ (بخاری، 4/138، حدیث: 6142)

2۔ معمر اَفراد کی تکریم اِجلالِ اِلٰہی کا حصہ ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

3۔ معمر اَفراد کی تکریم عظمتِ رِسالت کا نفاذ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

4۔ عمر رسیدہ اَفراد کی تکریم علامتِ اِیمان ہے معمر افراد کی بزرگی کے باعث انہیں خاص مقام و مرتبہ عطا کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ پہچانے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

5۔ معمر اَفراد کا وجود باعثِ برکت ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر و برکت ہے۔ پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

مختصر یہ کہ ہمیں چاہئے کہ ضعیف لوگوں کے حقوق سے متعلق اسلام کی عطاکردہ روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور حق تلفی کی اس دیمک کا خاتمہ کریں جو ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو بوسیدہ کررہی ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اپنے بندوں پر آسانی چاہتا ہے اسی لیے انہیں نرم احکام عطا فرماتا ہے اور کئی جگہ رخصتیں عطا فرماتا ہے لوگوں کی طاقت کے مطابق ہی انہیں حکم دیتا ہے اور ان کے فطری تقاضوں کی رعایت فرماتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں بوڑھے والدین کی عزت و خدمت کے متعلق رب تعالی نے ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائيل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

آیت مبارکہ کے اس جز کے بارے میں صراط الجنان میں ہے کہ اگر تیرے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے اَعضا میں طاقت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں تیرے پاس ناتواں رہ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنا اور حسنِ ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا۔ (صراط الجنان، 5/443)

بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والا چاہے والدین ہو رشتے دار ہو یا پڑوسی اسکی عزت کرنے کا اور اسکے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

معمر و ضعیف کے حقوق:

1) بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا: رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ کی تعظیم کا حصہ ہے۔ (ابو داود، 4/344، حدیث:4843)

2) بوڑھے مسلمان کو سلام کرنےمیں پہل کرنا: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بچہ بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری، 4/166، حدیث: 6231)

3) بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا اور انکے ساتھ حسن سلوک کرنا: انکی ہر جائز کام میں مدد کرنا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان کی عزت کی جائے۔ (ابو داؤد، 4/344، حدیث: 4843)

اسی طرح بوڑھے والدین کے بھی کئی حقوق ہے جیسے:

4) والدین کے انتقال بعد ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا: حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ (کنز العمال، 8/192، حدیث: 45441)

میرے ماں باپ کی آل و اَحباب کی مغفرت کر برائے رضا یاخدا

5)ضعیف والدین کی نافرمانی والے کاموں سے بچنا: اور انکی اطاعت وفرمانبردار کرنا اور اپنے ضعیف والدین کی طرف رحمت کی نظر کرنا۔ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث۔ (3) مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظر رحمت کرے تو اللہ اسکے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھتاہے لوگوں نے کہا: اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے؟ فرمایا: ہاں اللہ بڑا ہے اور اطیب ہے۔

مُطِیع اپنے ماں باپ کا کر میں انکا ہر اِک حکم لاؤں بجا یاالٰہی

اسکے علاوہ بھی قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں کئی حقوق بیان فرمائے گئے جس پر عمل کرنا ہم پر ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں ضعیف لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین 


دین اسلام نے جہاں ہمیں نماز روزہ زکوۃ حج اور دیگر عبادات کا درس دیا ہے وہی حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بہت تاکید فرمائی ہے ہمارا پیارا دین اسلام تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام مرتبہ میں چھوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کریں اور جو علم عمر عہدے اور منصب میں ہم سے بڑے ہیں ان کا ادب و احترام بجا لائیں ہمارے بڑوں میں ماں باپ چچا تایا ماموں بڑے بھائی بہن دیگر رشتہ دار استاذہ پیر مرشد علماء مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں زندگی بھر کسی نہ کسی طرح ہمارا اپنے بڑوں سے رابطہ ضرور رہتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کا ادب و احترام کریں ان کے ادب و احترام کا حکم خود ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا: بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنت میں میری رفاقت پا لو گے۔ (شعب الایمان، 7/458، حدیث: 10981)

والدین کے ادب و احترام کے متعلق اللہ والوں کا کتنا پیارا انداز ہوا کرتا تھا حضرت امام ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار تھے مگر اس کے باوجود اپنی والدہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ساتھ کھانا تناول نہیں فرماتے تھے کسی نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا تو ارشاد فرمایا: میں امی جان کے ساتھ اس خوف کی وجہ سے کھانا نہیں کھاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کسی چیز پر ان کی نظر پہلے پڑھے اور انجانے میں وہ چیز ان سے پہلے کھا کر ان کا نافرمان ہو جاؤں۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

اس ارشاد گرامی سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جو اپنے سے بڑی عمر والوں کے ساتھ عظمت اور احترام کا برتاؤ نہ کریں ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئیں ان کی بزرگی اور عمر رسیدہ ہونے کا خیال کر کے ان کا احترام اور ان کی تعظیم نہ کریں اسی طرح امر بالمعروف کو ترک کرنے والے اور برائی سے نہ روکنے والے کی بابت آپ ﷺ نے یہی حکم فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ دنیا اور آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصا بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہیں ماں باپ کے کا احترام اور ان کی خدمت کرنا یقینا بڑی سعادت مندی ہے ہمارے حق میں ان کے دل سے نکلی ہوئی دعا دنیا اور اخرت سنوار سکتی ہے اسی طرح قریبی رشتہ دار سے صلہ رحمی اور ان کا احترام یقینا باعث سعادت ہے۔ حدیث پاک ہے کے مطابق ان سے صلہ رحمی کرنے پر عمر میں اضافہ اور رزق میں وسعت کی بشارت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے بزرگوں کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کا احترام کرے، انہیں تکلیف پہنچانے سے بچے کہ ارشاد نبوی ہے: آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو پیٹھ نہ پھیرو بغض نہ رکھو حسد نہ کرو اور اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالی کی تعظیم کا حصہ ہے اور اسی طرح قرآن پاک کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک میری امت کے معمر و ضعیف افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی اور عظمت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں ہے: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔(کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ادھیڑ عمر کے لوگوں سے بھلائی حاصل کرو اور نوجوانوں پر رحم کرو۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6047)

پیر و مرشد کے تعظیم و توقیراور ان کا ادب و احترام بھی ہر مرید پر لازم ہے والدین اساتذہ اور بڑے بھائی کا مقام اور ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ مگر پیر مرشد وہ ہستی ہے جن کی محبت دل میں خوف خدا عشق مصطفی ﷺ اجاگر کرتی ہے نیز باطن کی صفائی،گناہوں سے بیزاری، اعمال صالحہ میں اضافہ اور سلامتی ایمان کے لیے فکر مند رہنے کی سوچ فراہم کرتی ہے لہذا مرید کو چاہیے کہ مرشد سے فیض پانے کے لیے پیکر ادب بنا رہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا تو وہ لوٹ کر واپس وہی پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا بزرگوں کا ادب کرنے والا نہ صرف معاشرے میں معزز سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات بڑوں کے ادب و احترام کے سبب اس کی بخشش و مغفرت بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص دریا کے کنارے پر بیٹھا وضو کر رہا تھا اسی دوران لاکھوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لائے اور اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وضو فرما رہے تھے جب اس شخص نے دیکھا کہ جس طرف میرے وضو کا غسالہ بہہ رہا ہے اس طرف تو اللہ کے مقرب ولی بیٹھ کر وضو فرما رہے ہیں تو اس کے دل نے یہ بات گوارا نہ کی اور وہ اٹھ کر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے دوسری طرف جا کر بیٹھ گیا جہاں سے ان کے وضو کا مستعمل پانی اس طرف آرہا تھا اللہ کے ولی کے ادب و احترام کا صلہ اس شخص کو یوں ملا کہ جب اس کا انتقال ہوا اور کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا تو اس نے بتایا اللہ پاک نے اپنے ولی حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے ادب و احترام کی برکت سے بخش دیا۔ (تذکرۃ الاولیاء، 1/196)

حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! جو شخص کسی قوم کا محافظ بن جائے تو اسے اور دوسرے لوگوں کو مال غنیمت میں برابر حصہ ملے گا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ام سعد کے بیٹے تمہیں تمہارے بوڑھوں کے سبب ہی رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔


فرد سے مل کر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں جہاں چھوٹے اور نوجوان لوگ موجود ہیں اسی طرح معمر اور ضعیف لوگ بھی موجود ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ عمر رسیدہ افراد اپنی کمزوری، ناتوانی اور ضعیف العمری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں، جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے آج وہ خود عمر کی اس منزل پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی خدمت و محبت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں نوکروں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کی جائے اور ان سے محبت اور حسن سلوک کیا جائے اور اس کے عوض بارگاہ الٰہی سے عظیم اجر حاصل کیا جائے ۔

عمر رسیدہ افراد کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرامین رحمتِ عالم ﷺ بڑے واضح اور اہمیت کے حامل ہیں۔

(1)۔ان کی عزت کیجئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (1)

اسلام، ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے۔ ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔(2)

2۔باجماعت نماز کی قرات میں تخفیف۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہﷺ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت کرنے میں اُس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔

3۔ان کے مرتبے کا خیال رکھا جائے۔ حدیث پاک میں ہے: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال کرو۔ (4)

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔

4۔گھر میں ان کا ادب و احترام بجا لایا جائے اور ان کے حکم کو ترجیح دی جائے۔ اور جس کسی کام کے کرنے کا حکم دیں اگر خلاف شرع نہ ہو تو فورا بجا لایا جائے ( یعنی کر لیا جائے) ان کی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اگر عمر کے تقاضے کے مطابق اگر کسی بات پر ڈانٹ دیں یا غصہ کریں تو ان سے ناراض نہ ہوا جائے اور نہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہوں۔

5۔ ان کی مدد کی جائے اور حسن سلوک سے پیش آیا جائے بوڑھے اور ضعیف لوگ تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اگر ان کے ساتھ باہر جائیں تو ہاتھ پکڑ کر سڑک کو عبور کرنے میں مدد کی جائے بچوں کو بوڑھوں کا ادب سکھایا جائے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنا جائے اور ان کی خوب خدمت کر کے ان سے دعائیں لی جائیں ان کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں تاکہ معاشرہ اور گھر دونوں امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ (5)

اللہ پاک ہمیں بوڑھوں کا اکرام کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات:

1۔کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011

2۔کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010

3۔ بخاری، 1/ 248، حدیث: 670

4۔بخاری، 4/138، حدیث: 6142

5۔مستدرک، 1/ 131، حدیث: 210


دین اسلام جہاں اپنے ماننے والوں دیگر نیک اعمال کا حکم دیتا ہے وہیں اسکی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ نہایت احسن انداز میں حقوق العباد کا حکم بھی ارشاد فرماتا ہے، حقوق العباد میں عمر رسیدہ حضرات کے حقوق بھی شامل ہیں اگر سب کے حقوق پورے کیے جائیں تو ایک غیر خوشگوار معاشرہ ایک خوشگوار معاشرے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔آئیے جانتے ہیں حقوق کہتے کس کو ہیں؟ چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔ (المعجم الوسیط، ص 188) جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ان کا تعلق چونکہ بندے سے ہے اسی لئے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ پاک نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/459-  460ملخصاً)

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) (پ 14، الحجر:88) ترجمہ: تم اپنے پروں کو مسلمانوں کے لیے جھکائے رکھو۔

چند حقوق ملاحظہ کیجیے:

جگہ دینے میں جلدی کی جائے: مجلس میں بیٹھے ہوں اور کوئی بزرگ آجائے تو ان کے لیے جگہ بنائی جائے۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص حُضورِ اکرم ﷺ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا، لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کی تو رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ ( ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

ان کی تعظیم کی جائے: ہر مسلمان کی تعظیم فرض ہے لہذا معمر افراد کی عزت کرنے میں بھی چستی سے کام لیاجائے۔ یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ (شعب الایمان، 7/ 460، رقم: 10987)

کچھ تقسیم کرنے میں انکو فوقیت دینا: کچھ تقسیم کررہا ہے اور ضعیف افراد بھی حاضر ہیں تو ان کی دل جوئی کیلیے انکو پہلے دینا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اُس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری، 2/ 829، حدیث: 2224)

معاملات میں ان کا لحاظ رکھاجائے: یعنی کہ جس معاملے میں انکے لیے آسانی ہو اور شریعت بھی اجازت دے تو اس کو اختیار کیا جائے۔ جو کوئی بھی لوگوں کو نماز پڑھائے وہ مختصر کرے کیونکہ ان میں کمزور بوڑھے اور کام کاج والے ہیں۔

ان کی بات توجہ سے سنی جائے: وہ بات کریں تو مکمل توجہ انکی جانب کرکے بات سننی چاہیے۔ حضور ﷺ جس طرح پہلے شخص پر توجہ دیتے تھے اور اس کی بات کو سنتے تھے، وہی توجہ آخری شخص پر بھی ہوتی تھی اور اس کو بھی اسی طرح توجہ سے سنتے۔

اے عاشقان رسول ﷺ ہمارے بزرگان دین ضعیف و معمر حضرات کے حقوق کا خصوصی لحاظ رکھتے تھے ہمیں بھی انکے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ الله پاک ہمیں تمام حقوق احسن انداز میں اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔


ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیده افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔ معمر اور ضعیف لوگوں کے حقوق کے حوالے سے چند اہم حقوق شامل ہیں:

عزت و احترام کا حق: ہر انسان کو عزت و احترام کا حق ہے، چاہے وہ معمر ہو یا ضعیف ان کی عزت کی حفاظت کرنا اور ان کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کرنا ضروری ہے۔

صحت کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو ان کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں معمولی صحتی مراقبت طبی معاونت اور ضروری دوائیوں کی فراہمی کا حق ہے۔

حفاظتی امن کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو معمولی حد تک حفاظتی امن کا حق ہے۔ ان کو حمایت فراہم کرنا ان کی حفاظت کی تدابیر اختیار کرنا اور ان کی حفاظت کے لئے مشترکہ اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔

شعور اور خصوصیت کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو اپنی خصوصیت اور شعور کی حفاظت کا حق ہے۔ ان کی انفرادیت کا احترام کرنا ان کے فیصلے اور ان کی خواہشات کا احترام کرنا اہم ہے۔

معاشی حقوق کا حق: معمر اور ضعیف افراد کو معاشی حقوق فراہم کرنا ضروری ہے، جیسے کہ معاشی سہولت روزگار کا حق اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا حق۔ ان کو مالی مدد فراہم کرنا اور ان کی معاشی صورتحال کی خواہشات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔


ضعیف کو عزت دینا، ان کی سماعت کرنا، ان کی مدد کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ان کے حقوق میں شامل ہیں۔ یہ حقوق ضعیفوں کو معاشرتی میل جول اور احترام کے ساتھ سلامت رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ان کی صحت کا خیال رکھنا، ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھنا، ان کو معاشرتی میل جول اور عدالتی حقوق کا اہتمام کرنا، اور ان کی سماعت کرنا۔ ضعیفوں کو معاشرتی میل جول دینے کے لئے ہمیں ان کے ساتھ مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کریں، ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئیں، اور ان کی باتوں کو سنیں اور سمجھیں۔ اس طرح ضعیفوں کو معاشرتی میل جول دیا جا سکتا ہے۔ ضعیفوں کو تعلیمی اور صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لئے ہم ان کو مفت تعلیمی اداروں میں داخل کروا سکتے ہیں اور صحت کی خدمات کے لئے مفت صحت کیمپس یا ہسپتالوں کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ یہ اقدامات ضعیفوں کو تعلیمی اور صحت کی خدمات فراہم کرنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیف کو عزت دینے کے لئے ہمیں ان کی باتوں کو سننا، ان کی رائے کی احترام کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے۔ ہمیں ان کے ساتھ مہمان نوازی کرنی چاہئے اور ان کو اپنا ساتھی سمجھنا چاہئے۔ یہ طریقے ضعیف کو عزت دینے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیفوں کیلئے کئی تعلیمی سہولیات موجود ہیں، جیسے کہ مفت تعلیمی ادارے، سماجی ویب سائٹس، اور آن لائن تعلیمی منصوبے۔ یہ سہولیات ضعیفوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے ہمیں ان کی ضروریات کو سمجھنا، ان کی مدد کرنا، اور ان کی حقوق کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ہمیں ان کی حفاظت کے لئے محفوظ ماحول اور جسمانی امن فراہم کرنا چاہیے اور ہر قسم کے تشدد سے بچنا چاہیے۔ یہ عوامل ضعیفوں کی حفاظت میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ ضعیفوں کی حفاظت کے لئے ہم کچھ درج ذیل اقدامات بھی کر سکتے ہیں:

ان کی تعلیمی اور صحت کی ضروریات کو پورا کرنا۔

ان کو محفوظ ماحول میں رکھنا۔

ان کو قانونی حمایت فراہم کرنا۔

ان کو معاشرتی تشدد سے بچانا۔

یہ اقدامات ضعیفوں کی حفاظت میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے۔ کیونکہ جماعت میں ضعیف بیمار اور بوڑھے ( سب ہی ) ہوتے ہیں۔ لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔

الله پاک ہم سب کو ان کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بھی ادب و احترام فرمایا کرتے تھے اور اسی طرح اسلام میں عمر رسیدہ اور ضعیف لوگوں کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں جن پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، آئیے ضعیف اور عمر رسیدہ افراد کے حقوق ملاحظہ ہوں:

1۔ عمر رسیدہ اور ضعیف لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا اس قدر ضروری ہے کہ جو بڑے لوگوں یعنی عمر رسیدہ افراد کی عزت نہیں کرتا حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہم سے نہیں، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

2۔ اسلام میں نہ صرف بوڑھے اور ضعیف لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے بلکہ جو کوئی بوڑھوں کی ان کی عمر رسیدگی کی وجہ سے عزت کرے گا تو اس کے لیے یہ انعام ہو گا کہ اللہ کریم اس پر کسی کو مقرر فرما دے گا جو بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

3۔ اسلام میں سماجی معاملات سے لے کر ہر قسم کے معاملات میں بڑے اور عمر رسیدہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے آئیے اس کے متعلق ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر پہنچے تو وہ دونوں باغات میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ (دریں اثنا) عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنے ساتھی کے معاملہ میں انہوں نے گفتگو کی تو عبدالرحمن نے ابتدا کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔ (بخاری، 4/138، حدیث: 6142)

4۔ معمر اَفراد کی تکریم اِجلالِ اِلٰہی کا حصہ ہے اس قدر بوڑھے افراد کی تعظیم اور تکریم کا حکم ہے کہ حدیث پاک میں ہے بوڑھے مسلمان افراد کی تکریم و تعظیم کرنا اللہ کریم کی تعظیم کا حصہ ہے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

5۔ معمر اَفراد کی تکریم عظمتِ رِسالت کا نفاذ ہے معمر اور ضعیف افراد کی تعظیم کرنا بہت ضروری ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا حکم ہے اور معمر افراد کی تعظیم کرنے کا اس قدر حکم ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جس نے میری امت کے معمر افراد کی عزت اور تکریم میری بزرگی اور عظمت سے ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

اللہ کریم ہمیں بزرگوں کا ادب و احترام کرنے اور حضور ﷺ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


انسائی زندگی کے تین حصے ہیں: بچین، جوانی اور  بڑھاپا ہے۔ عموماً انسان کا بچپن کھیل کود میں گزر جاتا ہے جوانی کچھ بننے میں گزرتی ہے کہ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ جبکہ بڑھاپا آتا ہے تو انسان کچھ کرنا بھی چاہے تو مختلف بیماریوں اور جسم کی کمزوریوں کی وجہ سے بے بس ہو جاتا ہے اور ایسے موقع پر اُسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

دین اسلام نے جہاں نماز روزہ زکوۃ حج کاروبار اور دیگر معلامات میں ہماری شرعی رہنمائی فرمائی ہے وہیں بوڑھوں کے مقام اور اُن کے ساتھ اچھے سلوک کو بھی بیان کیا ہے کمزور لوگوں میں بوڑھے والدین بھی ہیں ان کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائيل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

والدین کا حق یہ ہے کہ ان کی شان میں تعظیم کے الفاظ کہے۔ اپنے نفیس مال کو ان سے نہ بچائے اُٹھنے بیٹھنے چلنے اور بات کرنے میں ان کا ادب لازم جانے ان کے لیے فاتحہ صدقات تلاوت قرآن سے ایصال ثواب کرے کہ یہ اِن کے حقوق میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ معمروضعیف لوگوں میں بوڑھے والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور معاشرے میں موجود دیگر کمزورں کی بھی عزت کرنے کا حکم دیا ہے۔

1۔ بزرگوں کی تعظیم کرو: حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا اللہ پاک کی تعظیم میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)بوڑھے اور بزرگ مسلمانوں کا بہت ادب و احترام کرنا چاہیے جہاں تک ممکن ہو انہیں ہر ہر معاملے میں آگے کرنا چاہیے ان کے ساتھ شفقت والا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اللہ کی تعظیم یہ بھی ہے کہ اس کے وقار کی تعظیم کی جائے اور اس کا وقار بوڑھا مسلمان ہے۔

جیسی کرنی ویسی بھرنی: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور ﷺ نے ارشاد فرمایا، جو بھی جوان کسی بوڑھے کی اس کی عمر کی وجہ سے تعظیم کرئے تو اللہ تعالی اس کے لیے اُسے پیدا فرما دیتا ہے جو بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)واقعی آدمی جیسا کرتا ہے ویسا ہی بھرتا ہے یعنی آج اگر ہم کسی بزرگ کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو کل ہماری اولاد بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی۔ نیز اس حدیث پاک میں لمبی عمر پانے کی بشارت بھی ہے۔

2۔ بوڑھوں کو ترجیح دیجیے: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اُن میں سے ایک نوجوان گفتگو کے لیے کھڑا ہوا تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: یعنی تم ٹھہرو بڑا کہاں ہے۔ (شعب الایمان، 7/461، حدیث:10996)

معلوم ہوا ہمیں اسلام کی حسین تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اگر ہم گھر میں یا کہیں اور بیٹھے ہوں تو وہاں کوئی بڑا آجائے تو کھڑے ہوجائیں اور بزرگ افراد کو عزت و احترام کے ساتھ جگہ پر بٹھائیں اُن کو سلام کریں اور دعا لیں کہ انِ کی دعا اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔ یونہی اگر راستے میں جارہے ہوں کوئی بوڑھا شخص ملے تو انہیں عزت دیں اگر اُن کے پاس کوئی سامان ہو تو اُٹھا کر مدد کر دیں یا ٹریفک ہونے کی صورت میں سڑک پار کروا دیں۔ اور انہیں تکليف نہ دیں کہ جو بوڑهے افراد ہوتے ہیں وہ بچوں کی مانند ہوجاتے ہیں اور معاملات میں اِن سے مشورہ کرتے رہیں اِن کی رائے کو اہمیت دیں اِن کو اکیلا نہ چھوڑیں بلکہ وقت دیں ان شاء اللہ دلی سکون نصیب ہوگا۔

اللہ پاک ہمیں چھوٹوں پر شفقت اور بڑے بوڑھوں کی عزت کرنے اِن کے حقوق پورا کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین


ارشاد نبوی ہے: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)یہ اسلام کی انسانیت نوازی اور اس کا درس احترام ہے جو اس ارشاد گرامی سے صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے جو اپنے سے بڑی عمر والوں کے ساتھ عظمت و احترام کا برتاؤ نہ کرے ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ان کی بزرگی اور عمر رسیدہ ہونے کا خیال کرکے ان کا احترام ان کی تعظیم نہ کرے اسی طرح امر بالمعروف کو ترک کرنے والے اور برائی سے نہ روکنے والے کی بابت آپ ﷺ نے یہی حکم فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔

1۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

2۔ عمر رسیدہ افراد کی تکریم علامت ایمان ہے۔ معمر افراد کی بزرگی کے باعث انہیں خاص مقام و مرتبہ عطا کیا گیا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق (بزرگی) نہیں پہچانتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

3۔ معمر افراد کی تکریم ہی صحت مند روایات کی اساس ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

4۔ معمر افراد کا وجود معاشرے کے لیے باعث برکت ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر وبرکت پائی جاتی ہے۔پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

5۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو نوجوان کسی بوڑھے آدمی کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر تکریم کرے تو اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بوڑھا ہونے پر اس کے ساتھ بھی ایسے ہی اکرام کرنے والے کو مقرر فرمائے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح منقول ہے: یہ بات اللہ کی عظمت میں شامل ہے کہ آدمی کسی بوڑھے مسلمان کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر عزت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔(کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

6۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ! جو شخص کسی قوم کا محافظ بن جائے تو کیا اسے اور دوسرے لوگوں کو مال غنیمت میں برابر حصہ ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ام سعد کے بیٹے! تمہیں تمہارے بوڑھوں کے سبب ہی رزق دیا جاتا اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

حضرت عمرو بن میمون ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔(2) صحت کو بیماری سے پہلے۔(3) خوش حالی کو ناداری سے پہلے۔(4) فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔(5) زندگی کو موت سے پہلے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/245، حدیث: 5174)